2020 میں مغربی آسٹریلیا کے ساحلی علاقے میں 600 میٹر گہرائی میں زیرآب سائنسدانوں کا سامنا ایک بہت بڑے جاندار سے ہوا جو کسی رسی کی طرح پھیلا ہوا تھا۔
یہ گہرے سمندر میں پائے جانے والا سائی فونوفور تھا جس کے جسم میں جان لیوا ریشے یا ٹین ٹیکلز ہوتے ہیں۔
یہ ممکنہ طور پر دنیا کا سب سے بڑا جاندار ہوسکتا ہے۔
اس کا جسم اس طرح پھیلا ہوا ہوتا ہے جیسے کسی دھاگے یا رسی کو مختلف دائروں میں گھما کر رکھا ہوا ہے۔
اس جاندار کے جسم پر موجود لاتعداد ریشے پانی میں چھوٹے جانداروں کے لیے موت کی دیوار کا کام کرتے ہیں۔
اس جاندار کی دریافت ایک اتفاق کا نتیجہ تھی کیونکہ Schmidt Ocean Institute سے تعلق رکھنے والے سائنسدان سمندری تہہ میں موجود زندگی پر تحقیق کررہے تھے اور اس دوران وہ جیلی فش جیسے جاندار کے پاس پہنچے۔
ان کی آبدوز جیسی submersible واپس تحقیقی بحری جہاز کی جانب جارہی تھی اور اردگرد کے براہ راست مناظر کی فوٹیج بن رہی تھی جب انہوں نے اس جاندار کو دیکھا۔

Nerida Wilsonکے مطابق تمام افراد اس نظارے سے مسحور ہوگئے اور انہیں سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا چیز ہے۔
ان سائنسدانوں کے پاس وقت بہت کم تھا کیونکہ انہیں مخصوص وقت میں واپس جہاز تک پہنچنا تھا تو ان کے پاس چند لمحے تھے۔
اس لیے submersible کو اس جاندار کے گرد گھما کر ویڈیو بنائی گئی اور ٹشو کا ایک نمونہ حاصل کیا گیا۔
سائی فونوفور دیکھنے میں جیلی فش کی طرح کا جاندار ہے اور وہ اسی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کا جسمانی نشوونما منفرد انداز سے ہوتی ہے، جیسے سیکڑوں ننھی جیلی فش ایک دوسرے سے جڑ گئی ہوں۔
مگر سائی فونوفور ایک سنگل جاندار ہے جس کا جسم روایتی انداز سے نہیں بڑھتا بلکہ اعضا کے افعال مختلف ہیں۔
کچھ اعضا غذا کے حصول کا کام کرتے ہیں، کچھ افزائش نسل جبکہ دیگر پانی میں آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
ایک سرسری تخمینے کے مطابق سائی فونوفور ممکنہ طور پر دنیا کا سب سے بڑا جاندار ہے جس کی لمبائی 45 میٹر تک ہوسکتی ہے، یعنی بلیو وہیل سے بھی زیادہ۔
مگر اب تک کوئی عالمی ریکارڈ اس جاندار کے نام نہیں ہوسکا کیونکہ اب تک اس کے حجم کا مستند تخمینہ سامنے نہیں آسکا۔
سائنسدانوں کی جانب سے photogrammetry کے ماہرین کے ساتھ ملکر اس جاندار کے حجم کو درست تخمینے کے لیے کام کیا جارہا ہے مگر ویڈیو کے ذریعے یہ جاننا آسان کام نہیں۔