مرحوم شاعر منیر نیازی کہتے تھے ‘ ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں، ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو، اسے آواز دینی ہو، ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں’، اور یہ بات ٹھیک بھی ہے کچھ افراد کبھی بھی بروقت کام نہیں کرتے۔
اب چاہے کسی سے ملنا ہو یا کوئی کام کرنا ہو، یہ افراد ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ تاخیر پسند ہوتے ہیں۔
مگر آخر کچھ افراد تاخیر پسند کیوں ہوتے ہیں؟ اس کا جواب مختلف سائنسی تحقیقی رپورٹس میں دیا گیا ہے اور مختلف عناصر بشمول وقت کا احساس، وقت کا خیال رکھنے اور شخصیت ممکنہ کردار ادا کرتے ہیں۔
لندن کالج یونیورسٹی کی 2017 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ممکنہ طور پر ایسا ایک دماغی میکنزم کے نتیجے میں ہوتا ہے جس کے باعث کچھ افراد ہمیشہ تاخیر سے پہنچتے ہیں یا انہیں وقت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔
دماغ کا ہپوکیمپس نامی خطہ وقت کے کچھ پہلوؤں جیسے کسی کام کو یاد رکھنے یا کوئی کام کتنے وقت میں ہوسکتا ہے، کا تعین کرتا ہے۔
جرنل نیچر ریویوز نیورو سائنس میں شائع تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ اس دماغی خطے میں موجود نیورونز ‘وقت کے خلیات’ کے طور پر کام کرکے واقعات کے بارے میں ہماری یادداشت اور تصور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
مگر تحقیق میں اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا کہ آخر کچھ افراد کیوں وقت کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے۔
2017 کی ایک تحقیق میں 20 طالبعلموں کو شامل کیا گیا تھا اور انہیں مختلف مقامات پر بھیج کر سفر کے دورانیے کا تخمینہ گایا گیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ اگر کوئی جگہ لوگوں کے لیے جانی پہچانی ہو تو وہ وہاں تک پہنچنے میں کاہلی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔
ایک اور تحقیق میں بتایا گیا کہ کئی بار ہمیشہ تاخیر کرنے والے افراد کے پاس سفر سے جڑے کام کرنے کے لیے مناسب وقت ہی نہیں ہوتا جیسے صبح تیار ہونا مشکل ہوتا ہے۔
تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ ہم وقت کا تخمینہ ماضی میں اسی طرح کے کیے جانے والے کاموں سے لگاتے ہیں مگر ہماری یادیں اور تصورات ہمیشہ درست نہیں ہوتے۔
محققین نے بتایا کہ اگر ہمیں کسی کام کا بہت زیادہ تجربہ ہو تو ہمارے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے کہ اسے کرنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔
2016 کی ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ماحولیاتی عناصر جیسے موسیقی بھی ہمارے وقت کے فہم کو متاثر کرتے ہیں۔
ایک اور ماحولیاتی عنصر ہجوم ہوتا ہے۔
2022 میں جنرل ورچوئل رئیلٹی میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پرہجوم مقامات والے راستے کم مصروف جگہوں کے مقابلے 10 فیصد زیادہ طویل لگتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ شخصیت بھی اس حوالے سے کردار ادا کرتی ہے۔
محققین کے مطابق شخصی خصوصیات جیسے شعوری کیفیت میں کمی کے باعث کچھ افراد شیڈول کیے گئے کاموں کو بھول جاتے ہیں جب کہ ملٹی ٹاسکنگ سے بھی ایسا ہوتا ہے۔
جرنل ایڈوانسز ان Cognitive Psychology میں شائع ایک اور تحقیق میں ثابت ہوا کہ جب لوگ بیک وقت کئی کام ایک ساتھ کرتے ہیں تو ان کے لیے دیگر شیڈول کاموں کو یاد رکھنا اور انہیں مکمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ملٹی ٹاسکنگ کے نتیجے میں ہماری توجہ بھٹکتی ہے اور وقت کا احساس نہیں ہوتا۔
امریکا کی سان ڈیاگو یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دیر کرنے والے افراد ایسا جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ ان کی فطرت کا حصہ ہوتا ہے اور ان کے لیے شیڈول مرتب کرنے کا فن سیکھنا ممکن نہیں ہوتا، جبکہ وہ زندگی میں زیادہ کامیاب بھی ثابت ہوتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ وقت کا خیال نہ رکھنا درحقیقت پرامیدی، ملٹی ٹاسکنگ اور پرسکون شخصیت کو ظاہر کرتا ہے۔
محققین کے بقول اپنی ملازمتوں پر تاخیر پر پہنچنے والے افراد ہی ملٹی ٹاسکنگ کو ترجیح دیتے ہیں، عام طور پر بیک وقت کئی چیزوں کو ایک ساتھ کرنا کچھ اچھا نہیں سمجھا جاتا تاہم جو اس میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں وہ زندگی میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔
ایک اور تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کاموں میں تاخیر کرنا درحقیقت ذہین افراد کی نشانی ہوتی ہے۔
تحقیق کے مطابق ایسے افراد پرامید ہوتے ہیں اور حقیقت پسند نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے وہ اکثر تاخیر کرتے ہیں۔
2019 کی ایک تحقیق میں یہ دلچسپ دعویٰ کیا گیا کہ کئی بار کوئی ڈیڈلائن نہ ہونے پر بھی لوگوں کو وقت کا اندازہ نہیں ہوتا۔
پھر کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو دانستہ طور پر کاموں میں تاخیر کرتے ہیں اور یہ ان کے اندر کی ٹال مٹول کی ایک علامت ہوتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔