پنجاب کی عدالتوں سے مختلف نوعیت کے مقدمات میں ملزمان کو ملنے والی سزاؤں کے مقابلے میں بریت کا تناسب زیادہ ہونے پر ماہرین قانون نے ناقص تفتیش کو ذمہ دار قرار دے دیا۔
پنجاب کی سیشن عدالتوں میں گزشتہ سال کے دوران ایک لاکھ 71 ہزار 144 کیسز میں سے 60 ہزار 860 میں ملزم بری ہو گئے، ان میں سے 14 فیصد کیسز میں بریت میرٹ پر، 17.5 فیصد مقدمات میں راضی نامے پر، 38.69 فیصد مقدمات میں گواہوں کے منحرف ہونے جبکہ 29.92 فیصد کیسز میں بریت کے فیصلے کم ثبوتوں کی وجہ سے دیے گئے۔
پنجاب کی انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں گزشتہ سال کے دوران بریت کا تناست سزا کی نسبت زیادہ رہا، 10 عدالتوں میں 528 کیسز کے فیصلے ہوئے جن میں سے 228 میں سزائیں ہوئیں جبکہ 300 مقدمات میں ملزموں کی بریت ہوئی یوں سزاؤں کا تناسب 43 فیصد جبکہ بریت کا 57 فیصد رہا۔
اینٹی کرپشن کی عدالتوں میں سزا کا تناسب صرف 3.62 فیصد رہا جبکہ 8 سو 56 کیسز میں سے صرف 31 میں سزا ہوئی جبکہ 8 سو 25 کیسز میں ملزم بری ہو گئے۔
پنجاب کی ماتحت عدالتوں سے گزشتہ سال کے دوران کیسز میں سزاؤں کا تناسب 64 فیصد جبکہ بریت کا 36 فیصد رہا، ماہرین قانون کے مطابق ملزموں کی بریت کا تناسب کافی زیادہ ہے، جس کی وجہ ناقص تفتیش ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا ہے کہ بعض کیسز میں ناقص تفتیش کا ملزموں کو فائدہ ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی بے گناہ پکڑا جائے تو پراسیکیوشن کا کام صرف اسے سزا دلوانا نہیں ہوتا۔