مسلسل بستر تک محدود رہنے والے مریضوں کی کمر اور رانوں کے پچھلے حصے پر گہرے زخم اور ناسور (بیڈ سور) بن جاتے ہیں جنہیں اب ٹیکنالوجی کی مدد سے روکا جاسکتا ہے۔
فائبرتار میں روشنی ایک سرے سےداخل ہوتی ہے اور دوسری کنارے سے باہر نکل جاتی ہے۔ اس دوران ڈاکٹر دیکھتے رہتے ہیں کہ تار کس جگہ سے دباؤ میں آیا ہے اور مریض کی حرکت سے روشنی کے بہاؤ میں کیا کچھ تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں۔ اس سے معلوم چلتا ہے کہ مریض خود کو کتنا ہلا جلا رہا ہے۔ دوسری جانب دل کی دھڑکن اور سانس کی رفتار بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔
اگر مریض بدن کو نہیں ہلاتا تو اس سے ناسور بننے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے مریضوں کو بار بار کروٹ بدلتے رہنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
تحقیق سے وابستہ یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کے مرکزی سائنسداں ڈاکٹر اسٹیفن وارن اسمتھ کہتے ہیں کہ سینسر بتاتا ہے کہ آپٹیکل فائبر میں روشنی کہاں کہاں گزری ہے۔ اس طرح مریض کی حرکات و سکنات اور جسمانی کیفیات بھی نوٹ کی جاسکتی ہیں۔
اس طرح ڈاکٹر اور نرس یہ جان سکیں گے کہ مریض نے کتنے عرصے سےکروٹ نہیں لی ہے اور اب کب کب اس کا پہلو بدلنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اس طرح مزید کسی تکلیف دہ آلات کے بغیر ہی نہ صرف مریض کے دل اور سانس کا احوال لیا جاسکتا ہے بلکہ لیٹے رہنے سے زخم اور ناسوروں کو بھی روکا جاسکتا ہے۔